Wednesday, July 22, 2015

عظمتِ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

٭عظمتِ ام المومنین٭(سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا)
-----------------------------
ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہایت عالمہ، فاضلہ، مبلغہ اور خطیبہ، قرآن مجید کی حافظہ اور ہزاروں احادیث کی راویہ تھیں۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
"ہم صحابہ کرام کے جب بھی کسی حدیث میں اشکال ہوتا تو اس کی توضیح کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کرتے اور ان کے پاس ہمیں اس سلسلے میں کوئی وضاحت ضرور مل جایا کرتی"۔(1)
بلاغت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا احنف کہتے ہیں : میں نے حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خطبہ سنا۔حضرتِ عمر، حضرتِ عثمان، حضرتِ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خطبے سنے۔ بڑے بڑے قادر الکلام، بڑے بڑے مقررین اور خطاباء کو سنا لیکن:
" میں نے عائشہ سے بڑھ کر کسی شخص کو عمدہ اور خوبصورت کلام کہتے ہوئے نہیں سنا۔"
(الحاکم)
وہ نہایت سخی تھیں، دل کے بہت غنی تھا۔ہر چند کہ اللہ کے رسول ﷺ کے گھر فقر و فاقہ کے دن گزارے۔کئی کئی ہفتے گزر جاتے ان کے گھر روٹی پکنے یا سالن تیار کرنے کے لیے چولھا نہ جلتا تھا۔گزارہ صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ اس کے کبھی شکوہ نہ کیا۔
ان کے بھانجے عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے۔ اللہ کی قسم،! شام ہونے تک اس لاکھ درہم کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ شام کو ان کی لونڈی نے عرض کیا:اگر اس رقم میں ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو رات کے کھانے کا بندوبست ہوجاتا۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تم نے پہلے کیوں نہ بتلایا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے؟
اسی واقعے سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی ام ذریان بیان کرتی ہے کہ ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلیوں میں درہم ارسال کیے جو ایک لاکھ درہم کے برابر ھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک تھال منگوایا،تمام درہم اس میں رکھ دیئے اور لوگوں میں تقسیم کرنے لگیں۔ اس روز اُمّ المومنین خود روزے سے تھیں۔ شام ہوئی تو خادمہ سے بولیں کہ روزہ کھولنے کے لیے افطاری کا سامان لاؤ۔
خادمہ ( ام ذر)نے عرض کیا:" اے ام ال مومنین! آپ نے لاکھ درہم تقسیم کردئے ان میں ایک درہم کا گوشت ہی خرید لیتیں کہ افطاری کا بندوبست ہو جاتا۔"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:" میری سرزنش مت کر۔ اگر تو مجھے پہلے بتاتی کہ گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے تو میں ضرور خرید لیتی۔"
مشہور مؤلف زرکشی نے اپنی کتاب" الاجابہ" میں حضرتِ عائشہ کے چالیس مناقب بیان کیے ہیں جو دیگر ازواج مطہرات کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دیگر شادیاں بھی کیں مگر وہ تمام خواتین یا تو بیوہ تھیں یا مطلقہ۔ اور یہ شادیاں قبائل سے تعلقات قائم کرنے یا اُمت کو تعلیم دینے کی غرض سے کی گئے تھیں۔ مگر حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ وہ واحد شخصیت ہیں جو کنواری تھیں۔ وہ نبی کریم ﷺ کو تما م بیویوں سے زیادہ محبوب تھیں۔
جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے تو انہی کے پاس قیام پذیر ہوئے۔جب آپ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو جسم مبارک حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا۔انہی کے گھر کو یہ ٖفضیلت نصیب ہوئی کہ اس میں قبر مبارک بنائی گئی۔
جب حبشی غلام مسجد نبوی میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھلانے کے لیے نبی ﷺ نے اپنا کندھا پیش کی۔ انہوں نے اپنا چہرہ آپ کے مبارک کندھے پر رکھ کر کھیل دیکھا حتیٰ کہ وہ سیر ہوگیئں ۔آپ ﷺ نے ان کے ساتھ دو مرتبہ دوڑ لگائی۔ پہلی مرتبہ عائشہ رضی اللہ رعنہا سبقت لے گیئں اور دوسری مرتبہ جب جسم بھاری ہوگیا تو اللہ کے رسول ﷺ جیت گئے اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
"عائشہ! یہ اس دن کا بدلہ ہے۔"(2)
ایک دن ایسا ہوا کہ حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کے گھر آئے اور یہ اللہ کے رسول ﷺ سے کسی معاملے میں بحث مباحثہ کر رہی تھیں،جیسا کہ عورتیں بعض اوقات اپنے خاوندوں سے کرتی ہیں۔حضرتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ غصّے میں آئے اور اپنی بیٹی کو مارنا چاہا۔ اللہ کے رسول ﷺ آگے بڑھے، اُٹھے ہوئے ہاتھ کو روک دیا۔۔چند لمحات میں معاملہ ختم تھا۔جب ابو بکر رضی اللہ عنہ گھر واپس چلے گئے تو ارشاد فرمایا:
" تم نے دیکھا نہیں کہ میں تمہارے اور آدمی(تمہارے والد) کے درمیان حائل ہوگیا(اور تم اپنے والد سے مار کھانے سے بچ گئی)۔(3)
اللہ کے رسول ﷺ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ ایک فارسی نے آپ کو دعوتِ ولیمہ پر بلایا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پردے کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے اور ازواجِ مطہرات پردہ نہیں کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے کہا:
" اور میری زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا میرے ساتھ ہوں گی۔"
اس نے کہا: میرے پاس ایک ہی مہمان کا انتظام ہے۔چند روز کے بعد پھر اس نے کھانے کی دعوت دی۔ آپ ﷺ نے پھر اس سے کہا: کہ یہ میرے ساتھ ہو گی۔ اس نے پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعوت دینے سے معذرت کی۔تیسری مرتبہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ میرے ساتھ ہوگی۔
اب اس کے لیے رضامندی کے اظہار کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ اس سے اللہ کے رسول ﷺ کی محبت کا اندازہ کریں کہ بار بار اس شخص سےفرمایا رہے ہیں کہ میں اکیلا نہیں آؤں گا، بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا میرے ساتھ ہوگی اور اس شخص کی صراحت دیکھیے کہ اس نے دو مرتبہ انکار کیا، پھر تیسری مرتبہ ہاں کہا۔(4)
پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب اختیار دینے والی آیات نازل ہوئیں کہ اگر زوجاتِ رسول ﷺ دنیا چاہتی ہیں تو ان کو دے دلا کر رخصت کر دیا جائے۔یعنی طلاق دے دی جائے۔
اب ذرا محبت کا انداز دیکھیے ، اللہ کے رسول ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس مسئلے میں ان کی مرضی دریافت کر رہے ہیں ۔ تو کیا فرمایا:
" جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کرلو، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔"
ڈر یہ تھا کہ کہیں جلد بازی میں دنیا کاانتخاب نہ کر لیں۔ مگر ادھر بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں، فوراً بولیں:
"یہ بھی کوئی مشورہ کرنے والی بات ہے۔بات صاف ہے میں اللہ ،اس کے رسول ﷺ اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہوں۔"(5)
انہوں نے مال و دولت ِدنیا کو ذہن سے نکال دیا پھر دیگر امہات امومنین نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنا پسند فرمایا۔اور سبھی نے اللہ ،اس کے رسول اوردارِ آخرت کو پسند کیا۔ دنیا جس قدر گذارے لائق ملی اسی پر صبر شکر کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیئں۔
٭٭رضی اللہ عنہم اجمعین٭٭
--------
(1)سنن ترمذی:3883
(2)-[صحیح]-مسند احمد:6/۔264، ابن ماجہ:1979،ابو داؤد:2578
(3)-مسند احمد-4/۔272،سنن نسائی کبریٰ9155
(4)- صحیح ابن حبان: 5301
(5)-مسند احمد:3/۔328،سنن الکبریٰ:5/۔383

No comments:

Post a Comment